Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

صحن میں پھلوں اور سبزیوں کے ڈھیروں ٹوکرے موجود تھے جن کو ملازمائیں صاف کرکے علیحدہ علیحدہ برتنوں میں رکھ رہی تھیں۔ وہ سب مستعدی سے اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھیں۔ ماہ رخ کھڑکی سے ان کو دیکھ رہی تھی اس کی آنکھوں میں ماضی کی دھند چھانے لگی ۔ 
فیض محمد صحن میں بیٹھا ٹوکروں میں مختلف قسم کی سبزیاں رکھ رہا تھا فاطمہ صحن کے ایک کونے میں لگے نل سے مٹی میں بھرے آلوؤں اور میتھی، ساگ دھونے میں مصروف تھی۔
 
”نیک بخت ! ذرا اچھی طرح رگڑ کر مٹی صاف کرو“انہوں نے مصروف انداز میں فاطمہ کو ہدایت دی ۔ 
”بے فکر رہو، معلوم ہے مجھے آج پہلی بار نہیں دھورہی ہوں، روز ہی دھوتی ہوں تم کو ہر وقت یہی فکر رہتی ہے سبزی کے ساتھ لگ کر مٹی نہ چلی جائے لوگ تو اس طرح مٹی سے بھری سبزی بیچتے ہیں تاکہ وزن بڑھنے سے منافع زیادہ ملے“
”تم کیا چاہتی ہو ذرا سے منافع کی خاطر میں اپنا ایمان بیچ دوں ؟اپنی روزی کو گناہ آلود کرلوں ؟رزق حرام کرلوں؟،،سادہ طبیعت فیض محمد نرمی سے کہہ رہے تھے ۔


 
”میں تو ایک بات کہہ رہی ہوں رخ کے ابا ! کہ لوگ اس طرح نہیں کرتے میں خود اتنی صفائی سے سبزیاں دھوتی ہوں کہ ان پر ایک ذرا بھی مٹی کا باقی نہیں رہتا ہے آخر کار مجھے بھی تو اللہ کا ڈر ہے، میں کیوں روزی کو بے برکت کروں گی“
”شکر ہے اللہ کا جس نے مجھے تیری جیسی صابرہ نیک عورت دی ہے دراصل نیک بخت! عورت اگر صبر شکر کرکے مرد کی کم کمائی میں بھی ہنسی خوشی رہتی ہے تو مرد کو بڑا آرام و سکون رہتا ہے اس میں محنت و مشقت کرنے کی قوت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے ورنہ جب عورت ناشکری کرتی ہے تو مرد الٹے سیدھنے دھندے شروع کردیتا ہے، سچ تو یہ ہے عورت ہی مرد کو حرام کمانے پر تیار کرتی ہے تو حلال کی ترغیب بھی عورت ہی دیتی ہے“فیض محمد نے پیار بھری نگاہ فاطمہ پر ڈالتے ہوئے مطمئن انداز میں کہا۔
 
ماہ رخ تیار ہوکر کمرے سے نکلی تھی ، ماں باپ کو کاموں میں مشغول دیکھ کر حسب عادت اس کا منہ بن گیا تھا۔ 
”ارے آگئی میری شہزادی ! آج اتنی صبح اٹھ گئی ہو ؟“فیض محمد نے شفقت بھری نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔ 
”تمہارے کالج میں کوئی تقریب ہے جو اتنی جلدی تیار ہوگئی ہو“
”ابا!کوئی تقریب نہیں ہے گھر سے کالج اتنی دور ہے دو بسیں بدل کر جانا پڑتا ہے روز دیر ہوجاتی ہے مجھے“وہ ناگواری سے کہتی ہوئی پلنگ پر بیٹھی تھی ۔
 
”اچھا ! میں بھائی فضلو سے کہتا ہوں وہ روزانہ کالج تم کو اپنے رکشے میں چھوڑ آئے گا اور لے کر بھی آجائے گا، جو اس کا حساب بنے گا وہ ہاتھوں ہاتھ دے دیا کروں گا میں نہیں چاہتا میری بیٹی بسوں میں دھکے کھاکر کالج آیا جایا کرے“
”رکشہ…،،اس نے نخوت سے ناک سکڑتے ہوئے کہا۔ 
”میرا مذاق بنائیں گے ابا آپ؟وہاں سب امیروں کی بیٹیاں پڑھتی ہیں اور وہ بڑی بڑی گاڑیوں میں آتی ہیں، ڈرائیوروں کے ساتھ شہزادیوں کی طرح ڈرائیور ہی ان کے لیے دروازہ کھولتے اور بند کرتے ہیں میں حسرت سے دیکھتی ہوں ان لڑکیوں کو“
”کیوں دیکھتی ہو حسرت سے ؟یہ تمہاری ہی ضد کا نتیجہ ہے تم نے میرے منع کرنے کے باوجود ان امیروں کے کالج میں داخلہ لیا اب بھگو ایسی باتوں کو، ہزار دفعہ سمجھایا ہے ماہ رخ! اپنی حیثیت سے بڑھ کر خواہش کرنا چھوڑ دو، اپنے پروں سے زیادہ تم نے بلندی پر پرواز کرنے کی کوشش کی تو اسی تیز ی سے زمین پر گرو گی ، پھر نا پر رہیں گے اور نا ہی وجود سلامت رہے گا“فاطمہ سبزیاں دھونے کے بعد پلاسٹک کی چھلنیوں میں رکھتی ہوئی اس سے سخت لہجے میں گویا ہوئی تھیں۔
 
”اماں دیکھنا میں ایک دن ان بلندیوں کو چھوکر رہوں گی“
”ہوں! ذرا دھیان سے بلندیوں کو چھونے والے اکثر پستیوں میں جاگرتے ہیں، سونے چاندی کے محلوں میں رہنے والوں کے دل بہت سخت اور بے رحم ہوتے ہیں میری بیٹی!،،وہ تولیے سے ہاتھ خشک کرتی ہوئی اس کے قریب آئی تھیں۔ 
”اللہ نے جو نعمتیں تم کو دی ہیں ان پر شکر بجا لاؤ، کہیں ایسا نہ ہو خواہشوں کے پیچھے بھاگتے ہوئے اتنی دور نکل جاؤ کہ واپسی کا راستہ ہی بھول جاؤ، خواہشیں لاحاصل ہوتی ہیں کبھی کسی کو مکمل نہیں ملتی ہیں ان کو پانے کے لیے بہت کچھ کھونا پڑتا ہے اور تمہارے پاس ہے ہی کیا کھونے کے لیے ہمارے علاوہ ؟اپنی ذات کے سوا، اگر تم نے ہم کو خود کو، کھوکر بھی اپنی خواہشوں کو پالیا تو سوچیں آرزوئیں تمہاری پھر بھی تشنہ رہیں گی، ادھوری رہیں گے“
”آہ…ہا!،،درد اور پچھتاوا کسی خنجر کی مانند اس کے دل میں اترتا چلا گیا ماں کی آواز درودیوار سے پھوٹتی ہوئی محسوس ہورہی تھی وہ چیخ مار کر روتی ہوئی بیٹھتی چلی گئی۔
کسی وقت امی کی ان باتوں سے اسے سخت چڑ تھی وہ ان کو اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتی تھی ، ان کی باتیں کڑوی لگتی تھیں وہ ان آئینہ دکھاتی باتوں کو سننے کی روادار نہ تھی۔ اب جب وہ اپنی خواہشوں کے سمندر میں غرق ہوگئی تھی وہ تمام باتیں سمجھ آنے لگی تھیں اور وہ گڑ گڑا کر دعائیں مانگتی تھیں یہ سب ایک خواب بن جانے کی ۔ 
###
پری اس قدر بدحواس ہوکر کمرے سے بھاگتی ہوئی نکلی تھی کہ اس نے کوریڈور کے سرے پر موجود شیری کی موجودگی کو بھی محسوس نہیں کیا وہ منہ پر ہاتھ رکھے شانوں پر پھسلتے دوپٹے کی پروا نہ کرتے ہوئے بھاگتی اس کمرے میں آگئی جو دادی جان کے کمرے سے ملحق تھا۔
وہ نماز کی چوکی پر گرنے کے انداز میں بیٹھ گئی اور تیز تیز سانس لینے لگی۔ دل کی دھڑکن تھی کہ بے ترتیب تھی، گھٹن کا احساس ہنوز برقرار تھا۔ طغرل کے اس جنونی انداز نے اس کے احساس شل کر ڈالے تھے اسے سمجھ نہیں آیا وہ اس قدر ہسٹرک کیوں ہوگیا تھا، پہلی بار اس نے اسے سگریٹ پیتے دیکھا تھا اور وہ بھی بے تحاشا اور بجائے اپنی حرکت پر شرمندہ ہونے کے اس خوف سے کہ وہ دادی کو نہ بتائے اس نے اس طاقت سے اس کا منہ ہاتھ سے بند کیا تھا اگر چند لمحے وہ اسی طرح ہاتھ جمائے رکھتا تو دم گھٹ کر رہ جاتا۔
چند لمحوں تک وہ بکھرے حواس یکجا کرتی رہی تھی پھر اٹھ کر آئینے کے سامنے کھڑی ہوئی تو ناک کے نیچے کا تمام حصہ بے حد سرخ دکھائی دے رہا تھا۔ 
اس نے آہستگی سے اس حصے پر ہاتھ پھیرا تو وہ سن تھا ابھی تک، گلابی ہونٹوں پر بھی خون آلود سرخی جھلک آئی تھی جو ہلکے درد کی چبھن لیے ہوئی تھی، بے حد آہستگی سے اس نے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری اور درد کے احساس سے اس کے آنسو بہہ نکلے تھے ۔
 
”طغرل بھائی !آپ کبھی سدھر نہیں سکتے، تہذیب اور تمیز سے آپ کا دور کا بھی واسطہ نہیں ہے، شدت پسندی آپ کے مزاج کا حصہ رہی ہے بچپن سے آج تک آپ مجھے ستاتے آرہے ہیں، مجھے ہی زخم دے رہے ہیں“اب وہ ہاتھ سے اپنی پیشانی پر موجود اس باریک سے نشان کو دیکھ رہی تھی جو دس، گیارہ سال کی عمر میں اس کے دھکا دینے سے لگا تھا۔ 
”آخر میں ہی کیوں آپ کی شدت پسندی کی تسکین کا ذریعہ بنتی ہوں، یہاں میرے علاوہ عادلہ اور عائزہ بھی تو ہیں، ان سے آپ ایسا برتاؤں کیوں نہیں کرتے …ہاں…شاید اس لیے کہ ان کی سپورٹ کرنے کے لیے ان کی ممی ان کی بیک پر ہیں، اس لیے آپ کی کبھی ہمت ہی نہ پڑی ان سے مذاق میں بھی کوئی شرارت کرنے کی اور میں تنہا ہوں ، ممی یہاں میری سپورٹ کے لیے نہیں ہیں۔
پاپا کے لیے میرا ہونا نہ ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا ہے اور دادی“وہ روتے ہوئے آئینے میں اپنے عکس سے مخاطب تھی ۔ 
”وہ بہت محبت کرتی ہیں مجھ سے ، بے حد چاہتی بھی ہیں مجھے مگر مجھ سے زیادہ وہ آپ سے محبت کرتی ہیں۔ اتنی محبت کہ آپ کے سامنے میری محبت کی ویلیو ڈاؤن ہوجاتی ہے، کس سے شکایت کروں میں آپ کی ؟کون ہے جو میرا ساتھ دے گا ؟،،وہ ایک دم ہی خود کو تنہا سمجھنے لگی تھی ۔
طغرل کی اس نادانستہ حرکت سے جو اس سے سرزد ہوئی تھی ، وہ ادھر بیٹھی ہوئی آنسو بہارہی تھی تو ادھر طغرل بھی دونوں ہاتھوں میں سر تھامے بیٹھا تھا۔ 
غیر ارادی طور پر سرزد ہونے والی اس حرکت کا ادراک اسے پری کے جاتے ہی ہوا تھا لمحے بھر کو اس کے احساس شاکڈ ہوکر رہ گئے تھے ۔ 
”اوہ گاڈ! یہ کیا ہوگیا مجھ سے ؟وہ پہلے ہی مجھ کو کریکٹر لیس سمجھتی تھی اور اب اس حرکت کے بعد تو وہ میری پرچھائی سے بھی بچے گی۔
او میرے پروردگار! کیا کروں ؟کس طرح اس جذباتی لڑکی کو سمجھاؤں کہ جو ہوا بس وہ محض ایک اتفاق تھا، اپنے بچاؤ کے لیے کی جانے والی فوری تدبیر۔ اس خوف سے کہ تم نے دادی جان کو یہ بتایا کہ میں نے سگریٹ پی ہے اور وہ بھی اتنی کثیر تعداد میں تو…میں دادی جان سے سامنا کس طرح کرپاتا؟کچھ رشتے ہمارے لیے اتنے محترم ہوتے ہیں جن کے سامنے ہم معمولی سی بے ادبی و گستاخی کا تصور بھی نہیں کرسکتے ہیں پھر میں یہ کس طرح برداشت کرتا تم دادی جان سے میری شکایت کرو اور مجھے میری ہی نظر میں گرادو،،سوچوں کا آکٹوپس اسے جکڑ رہا تھا۔
 
”طغرل صاحب!طغرل صاحب!،،ملازمہ دروازہ ناک کرتے ہوئے آواز بھی دیتی جارہی تھی اس نے اٹھ کر دروازہ کھولا تو وہ بولی۔ 
”صاحب جی! دادی جان بلارہی ہیں آپ کو“
”دادی جان بلارہی ہیں …کون کون ہے ان کے پاس ؟،،یک دم ہی اس کے اندر اس خوف نے سر ابھارا کہیں پری نے دادی سے شکایت نہ کردی ہو، چوری چھپے پورا کیے جانے والے شوق کا بھانڈا نہ پھوڑ دیا ہو اس نے گھبرا کر پوچھا تھا۔
 
”فیاض صاحب ہیں ان کے پاس اور تو کوئی بھی نہیں ہے،،
”اوکے! میں آتا ہوں“اس نے اطمینان بھرا سانس لیتے ہوئے کہا ملازمہ چلی گئی۔ 
###
پری وہاں سے جاچکی تھی اس نے مڑ کر بھی نہ دیکھا تھا شیری کسی بے جان بت کی مانند وہاں کھڑا رہ گیا، وہ عادلہ کو پک کرنے آیا تھا اس کو معلوم نہ تھا جس کو بھولنے کی سعی میں لگا ہوا ہے پہلا سامنا اسی سے ہوجائے گا۔
وہ جانتا تھا پری جس کمرے سے نکل کر بھاگتی ہوئی اندر گئی ہے وہ کمرا طغرل کا ہے اور وہ بدحواسی کے عالم میں تھی گویا اس کے اندر سرخ آندھی سی چل اٹھی تھی۔ خوش گوار موڈ یک دم ہی آف ہوگیا ایک سرد آگ تھی جو اس کے رگ و پے میں بھڑک اٹھی تھی، اس کو ہر طرف دھواں ہی دھواں محسوس ہونے لگا اندر جاتے اس کے قدم باہر کی طرف مڑ گئے، عادلہ کا چہرہ اس کی نگاہوں سے اوجھل ہوگیا گھبرایا گھبرایا پری کا چہرہ اس کو ہر سمت نظر آرہا تھا۔
 
”صاحب! عادلہ بی بی تیار ہوکر آرہی ہیں آپ لیونگ روم میں آکر بیٹھ جائیں، میں آ پکے لیے ملک شیک لارہی ہوں“ملازمہ کو دیکھ کر وہ رک گیا اور اس کی بات نظر انداز کرکے بولا۔ 
”وہ کارنروالے روم میں کون ہے ؟“
”وہاں طغرل صاحب ہیں، وہ ان کا روم ہے“خیرون کو اس کا یہ سوال عجیب لگا پر اس نے ظاہر نہ ہونے دیا۔ 
”اچھا…جاؤ تم“ملازمہ کے اندر جاتے ہی وہ وہاں سے چلا آیا تھا۔
 
”ہوں! میں تمہیں ماردوں گا پری!میں نے تم کو اس سچے موتی کی طرح پاک صاف سمجھا تھا جو سمندر کی گہرائیوں میں پڑے سیپ کی کوکھ میں ہوتا ہے ، جس کو کوئی غلاظت کوئی ہوس چھوتی نہیں ہے تم کو میں نے کیا سمجھا اور تم کیا ثابت ہوئی ہو“وہ سوچ کے بگولوں کی زد میں تھا اور فل اسپیڈ سے دیوانوں کی طرح کار دوڑارہا تھا۔ 
”نیک نامی و شرافت کا پرچار کرتی ہوئی بدکردار لڑکی! محرم اور نامحرم کا راگ الاپنے والی ایک منافق روح ! دن کے روشن اجالوں میں آج میں نے تم کو رات کے سیاہ گناہ آلود اندھیروں میں لپٹے دیکھا ہے ، تمہارے چہرے پر گھبراٹ و بوکھلاہٹ ناجائز مراسم کی تھی“
###
”مایوں ، مہندی، ابٹن کچھ بھی نہیں ہوگا، یہ سب خود ساختہ رسمیں ہیں، جو بلاوجہ ہم نے خود پر لاگو کرلی ہیں، میں ایسی کوئی رسم کرنے کی اجازت نہیں دوں گا۔
سنت طریقے سے نکاح کرکے رخصت کردیں گے بس“فیاض نے صباحت سے دوٹوک انداز میں کہا۔ 
”آپ خوامخواہ ضد کر رہے ہیں، کوئی اس طرح بھی شادی ہوتی ہے اور پھر لوگ کیا کہیں گے ، کیوں اس طرح چھپ چھپا کر بیٹی کی شادی کردی، کس کس کو جواب دوں گی میں ؟،،
”مجھے لوگوں سے ڈر مت دلاؤ، میں ایسے لوگوں کی پروا نہیں کرتا جو بلا سبب دوسروں کی کھوج میں وقت برباد کرتے رہتے ہیں اور اگر تم کو اتنا ہی لوگوں کی باتوں کا خوف ہے تو شادی میں شرکت مت کرنا، بیٹھ جانا کہیں منہ چھپا کر مجھے جو کام کرنا ہے وہ میں کروں گا“
”واہ بھئی ! اچھی ہٹ دھرمی ہے آپ نے مجھے ماں سے مجرم بنادیا“شدت جذبات سے وہ رو پڑی تھیں۔
 
”ماں…عائزہ کے معاملے میں تم نے جس طرح بے پروائی و غیر ذمہ داری کا ثبوت دیا ہے اس غفلت میں تم پر جرم ہی ثابت ہوتا ہے مگر افسوس جان کر بھی میں تم کو اس بھیانک جرم کی وہ سزا نہیں دے سکتا، جس کی مستحق ہو، میرا مان، میرا اعتماد توڑ کر تم نے مجھے توڑ کر رکھ دیا ہے صباحت! تمہارے یہ مگر مچھ کے آنسو میرے ارادوں کو کمزور نہیں کرسکتے ہیں“ان کے سخت لہجے میں نمی کا عکس تھا۔
 
صباحت کی پھر ہمت نہ ہوئی ان سے کچھ کہنے کی وہ وہاں سے چلے گئے ، عائزہ جو لاؤنج تک آتی ان کی تند و تیز آواز سن رہی تھی ان کی آہٹ پاکر پردوں کے پیچھے ہوگئی تھی اور آہستگی سے پردہ ہٹا کر دیکھا۔ اس کے پاپا کی چال بے حد شکستہ تھی چہرے پر گویا صدیوں کی تھکن اتر آئی تھی ان چند دنوں میں وہ بوڑھے نظر آنے لگے تے ۔ 
”یہ سب تمہاری وجہ سے ہوا ہے عائزہ! کل تک وہ جوان و تواناں دکھائی دیتے تھے ، فخر سے سر اٹھا کر چلتے تھے اور اب ان کی چال میں شکستگی ہے وہ خود سے بے پروا دکھائی دے رہے ہیں گویا جینے کی امنگ ہی باقی نہ رہی ہو۔
راحیل کی جھوٹی محبت کی خاطر تم نے کس طرح اپنوں کے دل توڑے ہیں، تم کو سچی محبت کیونکر ملتی عائزہ! تم نے ان محبت کرنے والوں کی محبت کی قدر نہیں کی جو تم سے بے غرض محبت کرتے تھے“

   1
0 Comments